ریت پر گھر یونہی بنانا کیا خواب اب دیکھنا دکھانا کیا
ریت پر گھر یونہی بنانا کیا
خواب اب دیکھنا دکھانا کیا
جب ارادے ہیں پانیوں جیسے
ان پہ دیوار پھر اٹھانا کیا
آنکھ جب منتظر نہیں کوئی
راہ میں دیپ اب جلانا کیا
اک مرض ہو تو ہم طبیب کریں
سانس ہے روگ، سر کھپانا کیا
دم ہے توڑا ہر اک تمنا نے
تیرا آنا بھی اب ہے آنا کیا
جو محبت سے ہے گزر آیا
اسکو صحرا سے پھر ڈرانا کیا
جان جانا اسی کو کہتے ہیں
اور ہوتا ہے دل کا آنا کیا
کاہے ہم کو برا تو کہتا ہے
تو نے دیکھا نہیں زمانہ کیا
عقل پر جس کی پڑ گیا پردہ
اس کو پھر آئینہ دکھانا کیا
زندگی ہے کہ جشنِ وحشت ہے
ایک ماتم کو اب منانا کیا
کہاں سمجھے گا آدمی، ابرک
کیا حقیقت ہے اور فسانہ کیا
۔۔۔۔۔
Post a Comment